Afsana: Mard Nahi Rote افسانہ: مرد نہیں روتے


افسانہ

مرد نہیں روتے

Published In quarterly Ijra Karachi (Edition 10 / April-June 2012)

About Rafiullah Mian

I am journalist by profession. Poet and a story writer.

Posted on June 10, 2011, in Afsana and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink. 10 Comments.

  1. waqayi hila kar rakh diya aap ke is afsaane ne.ham ne pahle bhi yeh parha tha aur ayse hi hil gaye the. Allah aap ko khush rakhe.

    Like

  2. M Hidayat Sayer

    کچہ چیزیں اتنے بہر پور تاثر کے ساتھ آتی ہیں کھ ان کے بارے میں کچہ کھنے کے لئے الفاظ کھوج میں نکلا ھو ذھن بھٹکتا رھ جاتے ھے مگر الفاظ میسر نھیں آتے ھیں ۔ جو کسی تحریر یا تغلیق کی پزیرائی کا حق ادا کر سکیں۔ یھ کھانی اپنے پورے معنی علاقائی ثقافت اور حدود اربعھ کے ساتھ پڑھنے والے کو نھ سرف متاثر کرتی ھے، بلکھ ایک سوچ ایک فکر بھی دیتی ھے۔ خوش رھیے صاحب۔ ڈھیروں دعائیں۔

    Like

    • ہدایت سائر صاحب، آپ کی طرف سے پزیرائ کے لیے تہ دل سے ممنون ہوں۔ چوں کہ آپ خود ایک بہت اچھے شاعر اور افسانہ نگار ہیں، ٹی وی پروگرامز پروڈیوس کرنے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں، اس لیے میں کہ سکتا ہوں کہ آپ مجھ سے کہیں زیادہ کہانی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے جب آپ کہانی کے تناظر اور محل وقوع کی طرف نشان دہی کرتے ہیں تو یہ اہم نکتہ ہے۔ ملک کے کسی ایک حصے میں پیش آنے والے ناخوش گوار واقعات سے اگر دوسرے حصوں میں رہنے والے لاتعلقی کا اظہار کریں گے تو یہ یقیناً قومی وحدت اور بھائ چارے کے منافی عمل ہوگا۔ اگر کوئ کہانی کار کسی ایک حصے کی کہانی اس طرح پیش کرسکا ہے کہ دوسرے حصوں میں رہنے والوں نے اسے پڑھ کر اس کے ساتھ جڑ جانے میں کوئ دقت محسوس نہیں کی ہے، تو یہ یقیناً ایک کام یاب عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ کہانی کو سراہنے پر میری طرف سے شکریہ قبول کریں۔ اللہ آپ کو خوش باش رکھے۔

      Like

  3. راہی صاحب کا یہ افسانہ اپنے موضوع کے اعتبار سے تو اہم ہے ہی لیکن ساتھ ہی اس کہانی کی بنت میں ان کی تخلیقی صلاحیتیں جوبن پر نظر آتی ہیں۔ اپنے پورے احساس کو کینوس کرنے کے لیے راہی نے ایکنشنز کو پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ مرکزی کردار ایک پورے رویے کی علامت ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوج کشی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پس منظر میں بہت کچھ لکھا جانا چاہیے اور راہی کم از کم اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے میں کام یاب ہوئے ہیں۔

    Like

    • رانا صاحب، افسانے پر آپ کا تبصرہ خوش کن ہے۔ آپ جس طرح تحریر کے اندر اتر کر اس کے ماحول اور کرداروں سے شناسائی حاصل کرتے ہیں، یہ صلاحیت قابل تحسین ہے۔ آپ کا ایک افسانہ پڑھ چکا ہوں اور اب دوسرے افسانے کا انتظار ہے۔

      Like

  4. رفیع کا یہ افسانہ محض جملوں کی بیٹھک، نشست و برخاست نہیں ہے بلکہ یہ افسانہ بھی ہے۔ یعنی رفیع نے افسانے، کہانی کار ثابت کرنے اور افسانہ نویس بتانے کے لیے لکھے ہی نہیں (میرے اس خیال سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں)
    رفیع نے ہمیشہ موضوع پر کرداروں کو زبان دی، نہ کہ کردار اور کہانی سوچنے کے بعد اس میں موضوع داخل کیا ہے۔ اس نے کم لکھنے، لیکن ہلا کر رکھ دینے کی روایت قائم کی ہے جس کی مثال یہ افسانہ ہے۔ چھوٹے سے علاقے کی بہت بڑی کہانی کو مختصر افسانے میں سمیٹ دینا رفیع کے باکمال ہونے کی پہلی مثال نہیں

    Like

    • عارف عزیز، میں ہمیشہ آپ کے سفاکانہ تبصروں کی امید لیے بیٹھا رہتا ہوں۔ لیکن میری اس کہانی پر آپ کی طرف سے یہ غیر متوقع تبصرہ میرے لیے ایک خوش گوار تجربے سے کم نہیں۔ میں کہانی برائے کہانی لکھنے کی اگر کوشش کرتا بھی ہوں تو دوسروں کی طرح کام یاب نہیں ہوپاتا۔ جب تک کہانی اپنے موضوع سمیت تخیل کی سرزمین پر نہ اترے، میرا آگے بڑھنا محال ہوتا ہے۔ سو ایک اچھا افسانہ اس وقت منصہ شہود پر آتا ہے جب وہ مقصد اور موضوع سمیت خود آپ کے پاس آئے۔

      Like

  5. iqbal khursheed

    جب ہم مابعداستعماریت، جدیدیت، مابعدجدیدیت اور اس قسم کے دوسرے نظریات کو، ادبی تنقید کے دوران پیش نظر رکھتے ہیں، تو دل میں یہ خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ تاریخ بدل دینی والی تاریخ، یعنی نو گیارہ کے بعد، مابعد نوگیارہ جیسا ادبی نظریہ پیش کیا جائے، تاکہ ادیب حقیقی معنوں میں حقیقی کہانی بیان کر سکیں۔ گوکہ یہ کہانی، بہ ہر حال تجریدی اعر علامتی ہوگی۔ حالات کا جبر۔۔۔۔۔۔
    رفیع اللہ ایک تجربہ کار صحافی، سنجیدہ شاعر اور حساس افسانہ نگار ہیں، ان کی حالیہ کوشش “مرد نہیں روتے” نہ صرف ان کی، بلکہ اردو افسانے کی چند اہم ترین کوششوں میں سے ہے، جس میں سام راج کے ہتھ کنڈوں سے جنم لینے والی چیستانی صورت حال کو کمال مہارت سے گرفت میں لایا گیا ہے۔
    دہشت گردی، یا خودساختہ دہشت گردی اور تحفظ فراہم کرنے کی خودساختہ کوششوں سے بنی، ایک حساس استاد کی یہ کہانی بیان کرکے رفیع اللہ وہ حق ادا کیا، جو ذمے داری نبھائی ہے، جو ادیبوں کے شکستہ کاندھوں پر ہے۔
    زمین سے جڑے المیوں کو بیان کرتی یہ داستان اس ملک کے اہم ترین مسئلے، یعنی تعیلم کے قاتل عام کی گہری اور کثیر الجہتی تصویر پیش کرتی ہے۔
    “ارے گل محمد اب کس بات کی جلدی رہتی ہے تجھے?” اس سوال کے جواب اس جانب اشارہ ہے کہ اس تاریک خطے میں انسانیت زندہ ہے۔ یعنی یہ افسانہ بامقصد ادب کے زمرے میں آتا ہے، جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے۔ اور بگاڑ سے ملنے والے زخموں کے بھرنے کا خواہش مند ہے۔

    Like

    • اقبال خورشید، آپ ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں اور ایک منفرد اسلوب کے حامل ہیں۔ آپ جیسے ادیب کی طرف سے کہانی کی پذیرائی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔
      آپ نے یہ کہانی پڑھتے ہوئے جس نئے نظریے (اور یقینا” اردو ادب کا آیندہ نظریہ) کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ خود میرے لیے بھی چونکا دینے والا ہے۔ آپ تنقید نگار نہیں ہیں، لیکن ایک سچے تخلیق کار ہیں، جس کی وجہ سے آپ کا وجدان ایسے مستقبلی نکتے کی طرف گیا ہے۔
      آپ نے بامقصد ادب کی جو بات کی ہے، وہ بے حد اہم ہے۔ ادب بے مقصد ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ ادب ایک نہایت سنجیدہ کام ہے۔ اگر ادب کسی گھٹیا ترین اخبار میں چھپنے والی سنسنی خیزی کو کہا جائے تو میری نظر میں اس کا بھی تو کوئی مقصد ہے۔ وہ بھی ایک متعین مقصد کے تحت قوم میں گھٹیا اور سستے جذبات کو پھیلاتا ہے۔ اس سے کچھ روپے کماتا ہے۔ تو سنجیدہ ادب بغیر کسی مقصد کیسے تخلیق ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا کہیں ہوتا ہے تو یہ میری نظر میں گھٹیا اخبار میں چھپنے والے مواد سے بھی گھٹیا عمل ہے۔

      Like

Leave a reply to Rafiullah Mian Cancel reply