تبصرے

  افسانہ: پھٹے حال

افسانہ نگار: اقبال خورشید

To read the short story click the title

طبقاتی تفریق اور کش مکش اور ان سے جنم لینی والی معاشی صورت حال ایک ایسا مسئلہ ہے جو بعض اوقات معاشروں کو نگل جاتا ہے۔ اقبال خورشید کے افسانے کا سب سے بنیادی عنصر یہی کش مکش اور اس سے جنم لینے والی معاشی صورت حال ہے۔ لیکن وہ جس کھرے اور کھڑے انداز میں افسانہ نگاری کرتے ہیں؛ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ان حالات میں رہتے ہوئے دوسروں کی طرح اسے اپنی قسمت سمجھ کر خاموش نہیں بیٹھ رہتا، نہ ہی عمومی انداز میں نکتہ چینی کرکے ایک طرف ہوجاتا ہے بلکہ وہ کسی اذیت پسند کی طرح کند اور زنگ آلود نشتر لے کر جگہ جگہ سے اس ناسور کو چبھوتا ہے اور ایسے ایسے زاویوں سے چبھوتا ہے کہ خود بیمار اور تماشا دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے؛ اس اذیت ناک عمل سے تماش بینوں کو یک گونہ سکون کا احساس ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ معاشرہ من حیث الوجود اذیت پسند ہوچکا ہے۔ بس، خورشید صاحب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنی انوکھی نشتر زنی سے محظوظ کرانے میں کام یاب ہوجاتا ہے۔

***********************************************************************
***********************************************************************

تجریدی افسانہ : پَچھَّم کے گندے انڈے

افسانہ نگار : بے چہرہ کلاکار

To read the short story click the title

میں اس بات کا اب موقع بہ موقع اظہار کرنے لگا ہوں کہ ہمارا معاشرہ نہ صرف بے حد غلیظ ہوچکا ہے بلکہ بے حد بے معنی بھی ہوچکا ہے، جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے۔ اس معاشرے میں سانس کے نام پر زبردستی سینہ دھَونْکنْے والی مخلوق آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھ رہی ہے، اور جسے دیکھو، ایک رذیل قسم کی لاعلمی اور بے چارگی کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حالاں کہ وہ سب دیکھ رہا ہے اور سمجھ رہا ہے، لیکن رذالت کے کِیچَڑ میں لوٹ پوٹ کر اپنے لیے بے نام اور بے مزا مسرت کشید کررہا ہے۔ سو ایک ایسے بے سمت اور بے چہرہ معاشرے کے کلاکار کو ایسی ہی کہانی لکھنی چاہیے جس سے اس کے اپنے ماحول کی درست ترجمانی ہوجائے۔ بے چہرہ معاشرے میں اگر ایک کلاکار بے چہرہ رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو اس میں اَچَنْبھے کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ اس کا معاشرے کے رویے کے خلاف احتجاج کا ایک راستہ ہے۔ چوں کہ معاشرہ خود غلیظ تجریدی عنکبوتی تاروں میں بے طرح الجھا ہوا ہے، سو ایک کلاکار کی ایسی کوشش بلاشبہ قابل پذیرائی ہے کیوں کہ اگر کلاکار اس بات پر قادر ہو کہ اسے کس زبان میں کس زاویے سے اپنے معاشرے پر چوٹ کرنی ہے تو پھر سوائے مدح سرائی کے ہم کسی اور حرکت کے مُکَلِّف نہیں ٹھہرتے۔

***********************************************************************

***********************************************************************

Aik Nazm par Tabsira

حساس لوگوں کے اندر کئی آوازیں، کئی تمنائیں تڑپتی ہیں۔
دوسروں کو سمجھنا ایک ایسا مخمصہ ہے، جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ تاہم جب یہ اَنا مرکزی مخمصہ بنتا ہے تو کہیں زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔
دوسروں کو سمجھنے کی صلاحیت ایک روحانی عطا ہے۔
اور حساس لوگ اس کی تمنا میں روز مرتے ہیں۔

***********************************************************************

***********************************************************************

  1. iqbal khursheed

    رفیع صاحب، آپ کی جانب سے اس تجرباتی تحریر کی ستایش، نہ صرف اس کے مصنف، بلکہ میرے لیے بھی حوصلہ افزا ہے۔ (بہ ہرحال، اسے عوام میں لانے کی سازش میں نے ہی تیار کی تھی)
    اس تجریدی تحریر کے تعلق سے میری رائے کچھ یوں ہے:
    بے چہرگی کے آرزومند ایک نوجوان ادیب کی یہ کاوش سموچی تجریدیت نہیں، قطعی نہیں۔ اس میں کہیں کہیں، کبھی واضح اور کبھی مبہم، کہانی ملتی ہے۔ بے معنی معلوم ہونے والے کردار بھی، بین السطور ہی سہی، معنویت سے بھرپور معلوم ہوتے ہیں،
    کیا یہ قابل داد ہے، اس پر بحث ہونی چاہیے

    Like

    • میں اس بات سے اتفاق کرسکتا ہوں کہ اس کہانی کے دروبست میں کہیں کسی خصوصی منصوبہ بندی سے کام نہیں لیا گیا اور مصنف نے محض ایک منفرد اور دل چسپ خیال کے وارد ہونے کے بعد اسے بہت تیزی کے ساتھ کسی پینٹر کی تصویر کی مانند پینٹ کیا اور ایک تجریدی خاکہ سامنے آگیا۔ تاہم یہ ادیب کا اپنے ماحول سے فطری جڑاؤ ہے کہ اس چابکدستی میں بھی وہ لایعنیت کا شکار نہیں ہوا۔ سو میری نظر میں یہ قابل داد کاوش ہے۔

      Like

Leave a comment