ناول: ابابیل


ناول: ابابیل

مصنفہ: لیلیٰ ابوزید

اردو ترجمہ: عارفہ سیدہ زہرہ

یہ ناول انیس سو اسّی میں مراکش کی ادیبہ لیلیٰ ابوزید نے عربی زبان میں ‘عام الفیل’ کے نام سے لکھا جس کا انگریزی ترجمہ باربرا پارمنٹر نے

Year of the Elephant

کے نام سے کیا. یہ مشرق وسطیٰ کے ادب جدید کا نمایندہ ناول ہے اور اسے مراکش کے پہلے ناول ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے جس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا ہو. لیلیٰ ابو زید کا فرانسیسی کی بجائے عربی زبان کو اپنے تاثرات ناول کی صورت میں قلم بند کرنے کے لیے منتخب کرنا بذات خود قابل ذکر ہے جس سے ان کی حب الوطنی اور عربی زبان کو رائج کرنے کی کوششوں میں ایک جرات مندانہ قدم کا ادراک ہوتا ہے. ترجمہ نگار عارفہ سیدہ زہرہ نے خوبصورتی کے ساتھ اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے لیکن انہوں نے ناول کا عنوان تبدیل کردیا ہے.

ناول کی کہانی مراکش کی، فرانس جیسے طاقت ور قابض ملک کے خلاف جنگ آزادی پر مبنی ہے. جب اس جنگ آزادی کا آغاز ہوا، تو مبارز قوتوں کے مابین طاقت کا تواوزن ایسا ہی تھا جیسا کہ ہاتھی کے سامنے کوئی پرندہ. یہی وجہ ہے کہ لیلیٰ ابوزید نے اپنی کہانی کے عنوان کے لیے ایک تاریخی جنگ سے استعارہ لیا.

ناول کا پلاٹ اگرچہ بہت معمولی ہے تاہم مراکش کے انقلاب کے پس منظر میں عام لوگوں کی جدوجہد کو کافی حد تک واضح کرتا ہے. اس ناول پر تنقید میں اس اہم نکتے کو نظرانداز کیا گیا ہے کہ انقلاب کے بعد خود انقلابیوں کا کیا رویہ ہوا کرتا ہے اور خود ان کی زندگی اور رویوں میں کتنا بڑا انقلاب رونما ہوتا ہے، جو کافی حد تک منفی اور سامراجی ہوا کرتا ہے. اس نکتے کے حوالے سے یہ ایک اہم ناول ہے کہ یہ انقلاب کے اس رخ کو واضح کرکے دکھاتا ہے جس کے بارے میں عموماً یا تو سوچا نہیں جاتا یا پھر اسے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا. لیلیٰ نے خوبی کے ساتھ یہ حقیقت بیان کردی ہے کہ کس طرح قومیں غیروں کے ظالمانہ تسلط سے نکل کر اپنوں کے ظالمانہ تسلط میں گرفتار ہوجاتی ہیں. ناول کے مرکزی کردار کو اسی بعد از انقلاب صورت حال سے نبردآزما دکھایا گیا ہے جس نے نہ تو غیروں کے تسلط کو کبھی قبول کیا اور نہ ہی اپنوں کے. وہ حقیقی آزادی کی خواہاں ہے. اور جدوجہد کے دوران آنے والی مصیبتوں کو پامردی سے جھیلتی ہے اور مایوسی کو شکست دے دیتی ہے. تبصرہ نگاروں نے زہرہ کے طلاق کے معاملے میں خصوصی دل چسپی لی ہے جس سے ان کی عصبیت کا واضح پتا چلتا ہے. اگرچہ ناول کی ابتدا طلاق کے بابت ہی سے ہوتی ہے اور بعد میں بھی اس دردناک واقعے کی گونج جگہ جگہ سنائی دیتی ہے لیکن ناول کا حقیقی پس منظر یہ ہرگز نہیں ہے. پورا ناول انقلاب کے بعد انقلابیوں کے رویوں میں تبدیلی پر مرکوز ہے اور زہرہ کو ملنے والی طلاق بھی اسی بدلتے رویے کا ایک مظہر ہے اس لیے کُل کو چھوڑ کر جز پر توجہ مرکوز کرنا ہرگز اس ناول کے ساتھ انصاف نہیں کہلایا جاسکتا.
لیلیٰ ابوزید نے اس ناول کو ایک بہت عام سی اور ان پڑھ عورت کے توسط سے بیان کیا ہے، شاید اسی لیے اس نے کسی قسم کے دقیق مباحث سے گریز کیا ہے. ناول کی زبان بہت سادا ہے. اس میں کسی قسم کے فلسفیانہ مباحث نہیں ملتے اور نہ ہی اس نے کہیں دانشورانہ صلاحیت کا اظہار کیا ہے. ناول کا دروبست درمیانے درجے کا ہے جس میں طلاق کے دل خراش واقعے کو بنیاد بناکر قاری کو جذباتی سطح پر متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے. یہ ناول باوجود اپنی اہمیت کے، آزادی کی جدوجہد کے دوران اور آزادی کے بعد کے معاشرے کے حالات کا گہرائی سے احاطہ کرنے میں ناکام رہا ہے. نہ صرف یہ بلکہ فکری سطح پر بھی بہت تشنگی محسوس ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ اردو مترجم سیدہ زہرہ نے اس کتاب کا جو تعارف پیش کیا ہے وہ ناول کے مقابلے میں بہت بھاری محسوس ہوتا ہے.

About Rafiullah Mian

I am journalist by profession. Poet and a story writer.

Posted on February 9, 2013, in Reviews and tagged , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink. 4 Comments.

  1. Iqbal khursheed

    well written. good review. Now I am really thing about reading this one….

    Like

  2. And, well, too bad I cannot read Urdu. Hence, I am at loss.

    Like

Leave a comment