غزل
انجان ریت میں مرے ہاتھوں سے پل گیا
بس ڈوبنے کو تھا کہ اچانک سنبھل گیا
اک تجربہ تھا، اس میں اگانے کنول گیا
آیا ہوا نہ پھر کبھی قسمت کا بَل گیا
نظروں نے کھایا بل وہ، کہ پھر ہٹ نہیں سکیں
خمیازہ تھا ترا، مری آنکھیں بدل گیا
برسوں مرا زمیں سے عقیدہ جڑا رہا
کج رو کی اک ادا سے جڑوں سے اچھل گیا
ہم لوگ اپنے خول میں سمٹے ہیں اس قدر
لمحوں کا سایہ دھوپ میں جلنے نکل گیا
اک شوق خود نمائی نے اکسا دیا اُسے
فن پارہ تھا مرا، مرے فن کو کچل گیا
میری ریاضتوں نے وفا کو جِلا تو دی
اُس بے وفا کے سامنے سارا عمل گیا
اے رقص جاں تجھے تو خبر ہے وجود کی
کیسا خلا تھا میرا ہنر جو نگل گیا
تپتی زمیں پہ پیاس سے آنکھیں ابل پڑیں
ظالم کو کتنا رنج تھا، ان کو مسل گیا
پہچان کی ہوس نے کیا اتنا نامراد
جبل مراد پر کوئی رکھ کر غزل گیا
انساں گزیدہ شہر کے خوابوں کی باس میں
اس طور بے کلی تھی، مرا جی مچل گیا
Ghazal
Read the rest of this entry →