Blog Archives
تخلیق کار مگن ہے
تخلیق کار مگن ہے
محبت کے وہ لمحے
جن کے قدموں سے تذبذب سانپ کی طرح لپٹا ہے،
تخلیق کار چاہتا ہے کہ
تیقن کی سرزمین پراپنے نقوش بنائیں،
کیا کمزور اِرادوں کے پیچھے
کسی ہوش رُبا امکان کا جنم ہوسکتا ہے!
یا محض تخلیق کار کو اپنے کینوس کے سامنے
دیر سے بیٹھے بیٹھے کسی نئے
تجریدی تجربے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے!
وہ اپنی آنکھوں میں بچھی ہوئی
سرنگوں کے جال میں سرکتے
لہو کے تموّج کوانتظار کی گرمی سے
اُچھال رہا ہے،
جب کینوس پر واٹر کلر سے اسے مزیّن کرے گا
تو محبوب کی آنکھوں سے
دُمدار سیاروں جیسی پلکوں والا
اعتراف کتر لے گا،
اور صحرا کی ریت جیسی
لہروں والے ہونٹوں پر
مسکان کی دیر سے سوئی گھنٹی کو جگادے گا‘
تخلیق کار کیوں جانب دار نہیں رہ سکتا!
اپنے تخیّل اور تحیّر کو مجسم کرکے
جا بہ جا عکس در عکس کیوں پھیلاتا ہے!
……..اور
تخلیق کار بے نیازی سے
کینوس کے سامنے دیر سے بیٹھا
اپنی یکتائی برقرار رکھ کر
کہانی کو کسی نئے زاویے سے
معکوس کرنے میں مگن ہے!
بانجھ آنکھیں
A long free verse poem published in literary magazine quarterly Ijra – October to December 2013
بانجھ آنکھیں
جب بے نور آنکھوں کی پتلیاں
روشن ہونے لگتی ہیں
تو اندھی لڑکی پر
لرزہ خیز وارداتوں کے لیے مشہور
مانوس گلی میں لرزتے، پھیلتے
اَن دیکھے سایوں کا رمز کھلتا ہے
٭٭
قاتل مطمئن ہے
کہ اس نے گڈمڈ سایوں کے بیچ
سرخ ہوتا سایہ نہیں دیکھا ہے
لیکن اندھی لڑکی
ساری گواہیاں مردہ اعصاب کے ذریعے
دماغ کے اس خانے میں منتقل کرچکی ہے
جو لاچاری کے فلسفے سے مملو
ان گنت کتابوں پر مشتمل
لائبریری کا کام کرتا ہے
٭٭
اس نے ایک بار چمکتی سیاہی سے لکھا
جب تک نہر سے سپلائی جاری نہ ہو
واش بیسن کے اوپر اوندھا لٹکا
سنہری نل لاچاری کی تصویر بنا رہے گا
تم لوگوں نے انسانوں کے اذہان کو بھی
اچھی باتوں کی سپلائی بند کر رکھی ہے
اور معاشرہ لاچاری کی تصویر بن چکا ہے
معذوری کے بارے اس نے لکھا
اگر میری بصارت کی طرح
ہاتھ پیر اور دوسرے اعضا
چھین لیے جائیں
تب بھی چاندی کی قلعی میں لپٹا
معذوری کا تمغہ سینے پر سجانے نہیں دوں گی
تم لوگ اپنی اپنی ڈکشنریوں میں موجود
ہزاروں گم راہ کن معانی درست کرکے
لاکھوں انسانوں کو معذور ہونے سے بچاسکتے ہو
وہ لکھتی ہے
معذور تو وہ ہے
جو اچھی بات سوچنے سے قاصر ہے
٭٭
اس کی تیز سماعت
لفظ فلسفے سے اوّل اوّل آشنا ہوئی
تو اسے بہت اچھا لگا
ممکن ہے اس سمے
صوتی جمالیات کا کوئی غیر مرئی طائفہ
—اس مقام سے گزرا ہو
اور اسے محسوس ہوا ہو
کہ بالذات کسی جمالیاتی عنصر سے خالی
یہ لفظ اُسے اسی طرح پکار رہا ہے
جس طرح
اس کے سفید و سیاہ خوابوں میں
عجیب و غریب چیزیں
جنہیں بیان کرنے کے لیےاُسے
لغت اپنا کوئی لفظ مستعار دینے پرتیار نہیں ہوتی
اس نے رنگوں کے بارے سنا ضرور ہے
مگر وہ
اَن دیکھی اور اَن چھوئی چیز
اور اس کے دماغ میں موجود اجنبی تصور کے مابین
— کوئی ربط کس طرح پیدا کرے
چناں چہ اس سے قبل کے شورِ جرس
اسے کسی غیر مرئی بھنور
میں الجھادیتی
کسی کنواری اونٹنی کے گلے میں بندھی
گھنٹی کی آواز نے
اس کی سماعت کا نظام اچک کر
صحراؤں کی بین کرتی خاک کےنالوں سے
مانوس کردیا
وہ اپنی کنواری ڈکشنری کے لیے
بصری صحرائی الفاظ کا ایک ذخیرہ پاکر
بہت خوش ہوئی
اس نے کبھی کچھ نہیں دیکھا
لیکن اس کے ‘بصارت گھر’ کی پچھلی گلی سے
گزرنے والے مردہ راستے
نہ جانے کیسے اور کہاں سے
بہت ساری تصاویر
کسی سیٹلائٹ کی طرح کھینچ کر
پوری تفصیل کے ساتھ
لائبریری کا حصہ بنادیتے ہیں
٭٭
اندھی لڑکی اور”
قوت بصارت میں کوئی نسبت نہیں
جیسے صحرا میں اُگنے والی کھجور
اور اس کے گھر کے آنگن کے لیمو میں
”کوئی نسبت تخلیق نہیں کی جاسکتی
اس حقیقت کاادراک
صرف اندھی لڑکی تک محدود ہے
کہ اس کے موجود نادیدہ وجود کی کائنات میں
ہر دو کُرّوں کے درمیان
تخلیقی جوہر تیرتا رہتا ہے
کرب کے لمحات میں وہ اس جوہر سے
کُرّے تخلیق کرتی رہتی ہے
اندھی لڑکی کو محسوس ہوتا ہے
کہ اس کی گردن میں کنواری گھنٹی بندھی ہے
جس کی آواز اسے مقدس زمینوں
کی سیر کراکر لاتی ہے
اور وہ ہر بار اپنے اندر ایک نئے وجود
کی سرسراہٹ پاتی ہے
اس کی ریتیلی آنکھوں میں
اگرچہ ہر قوت کی لہر دم توڑ چکی ہے
لیکن دور دور تک پھیلی
سنگ لاخ اور سرخ زمینوں سے گزرتے ہوئے
اس نے وہ کچھ دیکھ رکھا ہے
جسے وہ کتاب کرلے تو
اپنے لکھے ہوئے کو
— خود اساطیری داستانیں کہہ کر مسکرادے
تذبذب میں پڑا ہوا آئینہ
اس کی مسکان اور
لیمو چاٹنے کے بعد میچی ہوئی آنکھوں میں
— زیادہ بڑی جان لیوا کا فیصلہ نہیں کرپاتا
لیمو کی کھٹاس
مرمر کی سلوں پر
ہمیشہ ادھورے سپنوں کے نقوش ڈالتی ہے
جب وہ انہیں مکمل کرنے کے لیے
مانوس گلیوں میں نکلتی ہے
تو اس کی مسکراہٹ
آئینے کی بے خبری پر روتی ہے
٭٭
Read the rest of this entry
ان گنت حوالوں کی اداسی
اَن گنت حوالوں کی اداسی
سَت رنگی آنکھوں میں پِنہاں شوخی
آفاقی حوالوں کے ساتھ
زندگی کے رَمز کا رَس ٹپکاتی ہے
!آفاقیت کیا ہے
تیری آنکھوں کی شکتی
جو دو کناروں کو جوڑے رکھتی ہے
مونا لیزا کیا جانے
جدید دور کا انسان
آنکھوں سے بہنے والی مسکراہٹ
اُس کے چہرے کے نقوش میں تلاش کرتا ہے
اور کایناتی حوالوں سے
!اُسے سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہے
تیری آنکھوں کی دِل کش پتلیاں
فطرت کے جتنے حوالے سمیٹ کر
اپنے گردوپیش پر سحر پھونک سکتی ہیں
وہ سب میری شاعری میں مل جائیں گے
لیکن اس حقیقت کا بطلان ممکن نہیں
کہ
میری شاعری اورتیری آنکھوں کے رنگ
کبھی مدغم نہیں ہوسکیں گے
٭٭٭
An-ginat HawaaloN ki Udasi
Sat-rangi aankhoN main pinhaaN shokhi
Aafaaqi hawaaloN k sath
Zindagi k ramz ka rass tapkaati hay
Aafaaqiyat kia hay
Teri aankhoN ki shaktii
Jo do kinaaroN ko joRay rakhti hay
Mona Lisa kia jaanay
Jadeed daor ka insaan
AankhoN say behnay wali muskuraahat
Os ke chehray k naqoosh main talash karta hay
Aor kaayinaati hawaaloN say
Osay samajhnay ki koshish main masroof hay
Tairii aankhoN ki dilkash putliaaN
Fitrat k jitnay hawaalay samait kar
Apnay gard-o-paish par sehr phoonk sakti hain
Wo sab meri shayirii main mill jaayingay
Lekin is haqeeqat ka batlaan mumkin nahi
K
Meri shayirii aor teri aankhoN k rang
Kabhi madgham nahi hosakaingay
ہمارے درمیاں
Picture it and write
ہمارے درمیاں
تم
تنگ و تاریک اور شکستہ گلی سے
روز گزر تے ہو
اور سورج تلے جلتی
اُسی پرانی بستی میں جانکلتے ہو
تمھاری زندگی
اسی انتہائی تجربے پر موقوف ہے
اور میں اس امید پر جیتا ہوں
کہ ایک دن تم
اپنے وجود کے اندر دور تک بچھی
کالی پگڈنڈی کو
کسی روشن خیال سے اُجال دوگے
Hamaray darmiyaN
Tum
Tang-o-taareek aor shikasta gali say
Roz guzartay ho
Aor sooraj talay jalti
Osi purani bastii main jaa nikaltay ho
Tumhari zindagi
Isi intihayi tajarbay par moqoof hay
Aor main is umeed par jeeta hoN
K aek din tum
Apnay wajood k andar door tak bichii
Kaali pagdandii ko
Kisi roshan Khayal say ujaal dogay!
!اے محبوب
!اے محبوب
تمھارے خیالات
محبت اور کرم نوازی کی
زندگی سے بھرپور توانائی
جو تم اپنے ساتھ لاتے ہو
ہمیشہ نعمت کی طرح محسوس ہوتی ہے
**
مجھے تم سے محبت ہے
لیکن زندگی حجابوں میں لپٹی ہے
انہیں پلٹتے پلٹتے
زندگی گزرجائے گی
اور ہمارے قلوب
جو جذبوں کی حرارت سے دھڑکتے ہیں
اور ہزاروں میل دوری سے بھی
ایک دوسرے سے مربوط رہتے ہیں
پگھل کر خاک نشیں ہوجائیں گے
اور ان میں دھڑکتے جذبے
مٹی کو نم کرکے
نمود کی کسی نئی تشریح کو جنم دیں گے
**
!اے میرے محبوب
کیا ہم واقعی محبت کرتے ہیں
یا محبت زدہ دل لے کر
خاک بسر
خود کو، یہ سمجھ کر دھوکا دیتے ہیں
کہ ہمارے تشنہ ہونٹ امرت سے آشنا ہوچکے ہیں
لیکن ہمارے جسم کیوں پگھل رہے ہیں
اب تب میں یہ رزق خاک ہونے کو ہیں
تھمارے ہونٹوں پر پپڑیاں جم چکی ہیں
کیا تم میرا عکس ہو
ہمارے بدن پانی بن کر پگھل رہے ہیں
اور تشنگی کا یہ عالم ہے کہ
زندگی کے صحرا میں
ریت کے ہر دوسرے ذرے میں
ایک سمندر ٹھاٹیں مارتا دکھائی دے رہا ہے
کیا ہم سرابوں سے نجات پانے کے لیے
اپنی اپنی زندگی دان کرسکتے ہیں
قلب ماہیت
An Urdu translation of the English poem “Metamorphosis of the Heart” written by my friend Shaheen Sultan ‘Mashaal’